Top Stories Photos on Yahoo! News Photos

Wednesday, September 3, 2008

First Get The Dog Out Of Water

ہم آمریت کو گالی دیتے ہیں اسکے اسباب رفع نہیں کرتے۔جيسا کہ
ہم دھوکے باز مذہبی و غیر مذہبی سیاستدانوں کے منہ سے آمریت کے خلاف تقریریں سن سن کر آمریت کو تو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگے ہیں، مگر اس آمریت کو جنم دینے والے اور اسے پروان چڑھانے والے (مذہبی و غیر مذہبی) کاروباری سیاستدانوں کو اپنا مسیحا سمجھتے رہتے ہیں، جنہوں نے ہمیشہ اسلام اور پاکستان کے نام پر اپنی دکانداری چمکائی ہے اوراپنی جیبیں بھرنے کو ہی اسلام اور جمہوریت ٹھہرایا ہوا ہے۔
ان مذہبی و غیر مذہبی سیاستدانوں کی لوٹ مار اور مفاد پرستی پر مبنی سیاست دیکھ کر لامحالہ فوجی افسران کے منہ میں بھی پانی بھر آتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبورہوتے ہیں کہ ہم کیوں پیچھے رہیں؟ چنانچہ پچھلے 60 سال میں وہ بھی بار بار میدانِ

عمل میں کودے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کر دیے۔

حقیقت یہ ہے کی یہ مذہبی و غیر مذہبی سیاستدان اور فوجی حکمران پاکستان میںمریکی مفادات کے سب سے بڑے محافظ بن چکے ہیں اور اپنی قوم کی مخلص رہنمائیکی بجائے اسلام اور پاکستان کی دشمن قوموں کے آگے سربسجود ہیں

مشرف حکومت نے اسلام دشمن طاقتوں کے اشاروں پر سرحد اور بلوچستان میںآگ

اور خون کی ہولی کھیل کر وہاں کے عوام کے دلوں سے پاکستان اور پاک فوج کی

محبت و احترام ختم کر کے اس میں نفرت کے بیج بو دیئے ہیں۔

دوسری طرف طالبان کے حامی مذہبی سیاستدان اس ایشو پر بھی صرف اور صرف اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ طالبان کا دیا ہوا اسلام کا تصور اسلام کا بہت بڑا دشمن ہے مگر جو کچھ مشرف انتظامیہ کر رہی ہے وہ بھی اسلام اور پاکستان کے حق می تباہ کن ہے۔

امریکہ نے اس بار ہم پر بڑا خطرناک وار کیا ہے اور ہمیں ایک ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے کہ دونوں طرف ہمارے دشمن کھڑے ہیں اور بھولی قوم دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک دھڑا مشرف کو مخلص سمجھتے ہوئے طالبان کا مخالف ہے تو دوسرا طالبان اور طالبان نما دھوکے بازوں کی ہمدردی میں مشرف کو گالیاں دیتا دکھائی دیتا ہے۔حالانکہ

ہم سب جانتے ہیں کہ کتے کو کنوئیں سے نکالے بغیر خواہ ہم ایک ہزار ڈول پانی نکال باہر کریں، کنواں کبھی صاف نہیں ہو سکتا۔ یونہی اپنے سیاسی ماحول میں در آنے والی گندگی کو صاف کئے بغیر آمریت کا مستقلاً راستہ روکنا ممکن نہیں۔ گزشتہ

سال 60

میں ہم بار ہا یہ تجربہ دہرا چکے ہیں مگر اس سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہوتے۔

ہم نے کبھی اپنے سیاستدانوں سے یہ نہیں پوچھا کہ پچھلے الیکشن میں وہ کیا منشورپیش کر کے جیتے تھے؟ اور انہوں نے اس پر کتنے فیصد عمل کیا؟ اگر ہم نے اپناوطیرہ تبدیل نہ کیا تو فطرت ہمیں کچل کر رکھ دے گی۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اسی سلسلے میں فرمایا تھا


فطرت افراد سے اِغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

ہمارا قومی بگاڑ اپنی حدیں پار کرتے ہوئے اس پوائنٹ تک جا پہنچا ہے کہ اب یہاںایک ہمہ گیر انقلاب کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ ہمیں ضرورت ہے کسی خمینی

کی، جو اس گندی سیاست کے گٹر میں اتر کر اس کی

ایسی صفائی کرے کہ پھر کسی آمر کو اس قوم پر شب خون مارنے کی جرات نہ ہو سکے اور ان کاروباری

مذہبی و غیرمذہبی سیاستدانوں کا ایسا صفایا کرے کہ قوم کی ان سے مستقل جان

چھوٹ جائے۔

علاوہ ازیں جہاں وہ ایک طرف دین کی روح سے واقف ہو تو دوسری طرف جدید دور

کے تقاضوں سے باخبر ہو کہ نہ صرف وہ عوامی مسائل کو حل کر سکے بلکہ اقوامِ

مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باغیرت لہجے میں ان سے بات کر سکے اور

ہمیں زندہ قوموں میں نمایاں مقام پر لا کھڑا کرے

حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے فرمایا

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں

جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا

No comments: