Top Stories Photos on Yahoo! News Photos

Wednesday, August 20, 2008

فراز کی وہ نظم۔۔۔

میں نے اکثر تمہارے قصیدے لکھے
اور آج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
پابہ زنجیر یاروں سے نادم ہوں میں
اپنے گیتوں کی عظمت سے شرمندہ ہوں
سرحدوں نے کبھی جب پکارا تمہیں
آنسووں سے تمہیں الوداعیں کہیں
تم ظفرمند تو خير کیا لوٹتے
ہار کر بھی نہ جی سے اتارا تمہیں
جس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست وکف در دہاں آئے تھے
طوق در گردنوں پابہ جولاں گئے
سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جنکا خوں منہ کو ملنے کو تم آئے تھے
مامتائوں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
انکی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
انکی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
جیسے برطانوی راج میں ڈوگرے
جیسے سفاک گورے تھے ویتنام میں
تم بھی ان سے ذرا مختلف تو نہیں
حق پرستوں پہ الزام انکے بھی تھے
وحشیوں سے چلن عام انکے بھی تھے
رائفلیں وردیاں نام انکے بھی تھے
آج سرحد سے پنجاب و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
اتنی غارتگری کس کے ایما پر ہے
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
کس کے آگے ہو تم سرنگوں غازیو
آج شاعر پہ ہی قرض مٹی کا ہے
اب قلم ميں لہو ہے سیاہی نہیں۔
آج تم آئینہ ہو میرے سامنے
پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں

No comments: